For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972

حضرت شیخ علاؤالدین پنڈوی رحمتہ الله علیہ


سلطان المرشدین حضرت شیخ علاؤالدین رحمتہ الله علیہ کے والد گرامی کا نام نامی حضرت مولانا اسعد تھا، جو لاہور کے رہنے والے تھے، علمی دنیا میں آپ کا خاندان بڑا مشہور ومعرف تھااور ایک بلند مقام رکھتا تھا، آپ صحیح النّسب سیّد تھے، اور سلسلۂ نسب حضرت خالد ؄تک پہونچتا ہے،آپ حضرت اخی سراج الدین ؄کےخلیفہ اور سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگ تھے، حضرت شیخ اخی سراج الدین ؄کے بنگال میں رشدوہدایت کے لیے پہونچنے سے پہلے ہی آپ کے علم وفضل کی دھوم مچ گئی تھی، شاہ عبدالحق محدث دہلوی ؄نے ”اخبار الاخیار“ میں لکھا ہے کہ:۔
”گویند کہ چوں اخی سراج با نعمت خلافت از پیش نظام الدین
رخصر یافت وخواست کہ بجانب وطن اصلی متوجہ شود بخدمت
وے التماس کرد کہ درآنجا شیخ علاؤالدین مردے دانشمند وعالی
جاہ است مرا باوے چگونہ بسر آید، فرمود غم مخور کہ وے خادم تو خواہد گردد“
ترجمہ: کہتے ہیں کہ جب اخی سراج الدین رحمتہ الله علیہ خلافت کی نعمت حاصل کرکے حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ الله علیہ سے رخصت ہونے لگے اور چاہا کہ اپنے وطن جائیں، تو آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ وہاں علاءالدین نام کے ایک بلند مرتبہ دانشمند ہیں اُن کی موجودگی میں میری وہا ں کیا چلے گی؟ آپ نے فرمایا فکر نہ کرو وہ تمہارا خادم ہوگا۔ چنانچہ حضرت نے جو فرمایا وہی ہوا۔
سلطان المرشدین علاؤالدین رحمتہ الله علیہ پہلے سے مالدار اور غنی ہونے کی وجہ سے بڑی شان وشوکت کے ساتھ رہتے تھے، مگر جب شیخ اخی کے مرید ہوئے تو فقراور درویشی اختیار کرلیا، آپ بڑے سخی تھے، مخلوق خدا پر بے دریغ خرچ کرتے تھے، بادشاہِ وقت کہاکرتا تھا کہ میرا سارا خزانہ شیخ کے دودن کا خرچ ہے، اور ان کے خرچ پر رشک کرتا تھا، ایک مرتبہ آپ کو شہر سے باہر نکل جانے کا حکم دیا ، آپ شہر سے باہر نکل کر سنار گاؤں چلے گئے، اور دوسال وہاں قیام فرمارہے، یہاں آپ نے اپنے خادم کو تاکید فرمائی کہ اب خرچ دوگنا کردیا جائے، چنانچہ پہلے سے دوگنا خرچ ہونے لگا، آپ علم وفضل میں بے نظیر تھے، کبھی کبھی جوش کے عالم میں سید اشرف سے فرماتے کہ آیاتِ قرآنی کی تفسیر اور فصوص الحکم اور فتوحاتِ مکیہ کے نکات مجھ سے حل کرو،میں ایک ایسا پھل دار درخت ہوں جسے ہلاؤ تو تمہیں عجیب وغریب پھل ملیں گے۔ پیر ومرشد کا یہ عالم تھا کہ حضرت اخی سراج الدین رحمتہ الله علیہ اکثر دور دراز علاقوں میں تبلیغ دین اور اشاعت اسلام اور خدمت خلق کے لیے تشریف لے جاتے اور کئی کئی دن تک سفر میں رہتے، حضرت شیخ علاؤالدین کھانے کا تھیلا کاندھے پر لٹکائے اور گرم دیگ سر پر رکھے آپ کے پیچھے پیچھے چلتے تھے، اور یہ خدمت پورے سال انجام دیا۔ گرم دیگ سر رکھتے تھے ، سر کے بال ختم ہوگئے تھے، مریدین کی تربیت میں آپ بہت سختی فرماتے تھے، بارہ سال بلکہ اس سے بھی زیادہ ایک مرید کی تربیت میں صرف ہوتا تھا، مریدین سے سخت محنت اور مشقت کا کام لیتے تھے،اور عبادت واذکار کے علاوہ ہر طرح محنت ومشقت کے کاموں کو خود کرنے کی مشق کراتے تھے، تاکہ صرف مصلّے کے مفلوج اور معطل زاہد نہ رہیں بلکہ میدانِ عمل کے مجاہد بھی ہوں، اور مخلوقِ خدا کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہیں۔
شیخ علاؤالدین رحمتہ الله علیہ کا اگر پہلا سبق معرفتِ حق تھاتو دوسرا سبق خدمتِ خلق تھا، آپ نے سب سے زیادہ محنت اور ریاضت کا کام خود اپنے بیٹے حضرت نورالدین سے لیاجو آٹھ سال تک سوکھی لکڑی کا بوجھ جنگل سے کاٹ کر خانقاہ تک لاتے تھے۔ چنانچہ ایک دن شیخ نورالدین کے بڑے بھائی جو بنگال کے وزیر اعظم تھےبھائی کی اس مشقت بہت متأثر ہوئے، اور شیخ سے ان کے لیے سفارش کی، حضرت شیخ نے ان کی سفارش پر صرف اتنی رعایت برتی کہ ان کی ڈیوٹی بدل دیا، اور جس جگہ بوڑھی عورتیں پانی بھرت تھیں وہاں کی مٹی بہت نرم تھی اس پر پانی کی وجہ سے پاؤں پھسلتے تھے آپ نے اپنے فرزند کو حکم دیا کہ وہ ضعیفوں کے گھڑےاٹھا کر پکی زمین تک پہونچادیا کریں، چار سال تک یہ خدمت انجام دیتے رہے، انھیں محنتوں اور ریاضتوں نے آپ کو قطب عالَم کے مرتبۂ بلند تک پہیونچادیا اور صوفیاء اور صالحین کی صفِ اول میں آپ کا شمار ہونے لگا۔
حضرت شیخ علاؤالدین رحمتہ الله علیہ کی انھیں خصوصیات نے آپ کو ”سلطان المرشدین“ بنادیا، آپ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص آپ کی تعظیم وتکریم کرتا تھا، یہاں تک کہ جب آپ نماز جمعہ سے واپس آتے تو قدم بوسی کے لیے لوگ ٹوٹ پڑتے تھے، اور آپ کو وہ عظیم شہرت ملی کہ سمنان کا بادشاہ تخت وتاراج کو ٹھوکر مار کر ہزاروں میل پیدل مسافت طے کرکے آپ کا قدم بوس ہوا۔





Islamic SMS/Messages/Post

For this type of post


Go to Blogs